Wednesday 21 October 2015

ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی

ادھر کی آئے گی اک رَو ادھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دُکھ مِرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی
ابھی بلند رکھو یارو! آخری مشعل
ادھر تو پہلی کِرن کیا سحر کی آئے گی
کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانیؔ
صدا، نہ گرد، کسی ہمسفر کی آئے گی

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment