Wednesday 21 October 2015

یہاں انسان کچھ ملتے تو ہیں کامل نہیں ملتے

یہاں انسان کچھ ملتے تو ہیں کامل نہیں ملتے
اگر اہلِ نظر ملتے ہیں، اہلِ دل نہیں ملتے
نگاہوں سے نگاہیں مل تو جاتی ہیں کسی پہلو
مگر، یہ کیا قیامت ہے کہ دل سے دل نہیں ملتے
تڑپ کو حسن خود بابِ محبت پر جبیں رکھ دے
مگر عہدِ محبت میں اب اہلِ دل نہیں ملتے
مِرا ایمان ہے اے دوست! آدابِ محبت پر
نہ جانے کس لیے اب وہ سرِ محفل نہیں ملتے
بِنائے زندگی تفریق پر رکھی ہے کیا بسملؔ
کہ حق پر مِٹنے والوں کے بھی باہم دل نہیں ملتے

بسمل دہلوی

No comments:

Post a Comment