Thursday 29 October 2015

دشت جلتے ہوئے جنگل سے کہیں اچھا ہے

دشت جلتے ہوئے جنگل سے کہیں اچھا ہے
ہاں مِرا آج مِرے کل سے کہیں اچھا ہے
اِکتفا کیجے کنویں پر کہ یہ کھارا ہی سہی
بے یقینی بھرے بادل سے کہیں اچھا ہے
کنجِ ہجراں میں ہلاہل ہی سہی سناٹا
تِری آواز کی دلدل سے کہیں اچھا ہے
یہ مِرا ٹاٹ یہ چوپال کا تختِ انصاف
مخملیں مسندِ مقتل سے کہیں اچھا ہے
تجھ ادھورے میں نکل آئئ مِری گنجائش
تُو مجھے حسنِ مکمل سے کہیں اچھا ہے
زندگی بخش ہیں یاں پیڑ، پرندے، پانی
باغ چھوٹا ہی سہی تھل سے کہیں اچھا ہے
پیاس بھڑکا کے بجھاتا بھی ہے آخر کسی دن
آب پارہ تِرے آنچل سے کہیں اچھا ہے
رکھ ابھی رکھ مِرے دل پر کہ ترا پائے فنا
دستِ امیدِ مسلسل سے کہیں اچھا ہے
روز افزوں ہے جو تنہائئ سے رشتہ شاہدؔ
یار کے ربطِ معطل سے کہیں اچھا ہے

شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment