ادھر اس فتنے پہ چھایا شباب آہستہ آہستہ
ادھر وہموں نے کھائے پیچ و تاب آہستہ آہستہ
ہو خیرِ عالم اس مستِ خرامِ ناز کے پیچھے
دبے پاؤں چلا ہے انقلاب آہستہ آہستہ
مِری وحشت نے شوقِ دید بخشا سب کو بڑھ بڑھ کر
بنے تم صاحبِ عالی جناب آہستہ آہستہ
کہ پیہم جھلملاتے ہیں شہاب آہستہ آہستہ
ہوا لہکی، فضا مہکی، چمن دہکا، جہاں بہکا
ادھر آیا جو وہ مستِ شباب آہستہ آہستہ
سن اے قاصد! در و دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
تُو کہنا اس سے یوں حالِ خراب آہستہ آہستہ
نگاہِ نقد سے سرزد نہ ہو کفرِ خطا پوشی
یونہی پڑھتا ہوں کارآمد کتاب آہستہ آہستہ
غلط ہے کفرِ شعر الہام ہو اے سحرؔ توبہ کر
بجا ہے علم و فن اک اکتساب آہستہ آہستہ
سحر عشق آبادی
No comments:
Post a Comment