Thursday, 22 October 2015

بلند از با وفا و جفا ہو گئے ہم

بلند از با وفا و جفا ہو گئے ہم
محبت سے بھی ماوراء ہو گئے ہم
اشاروں اشاروں میں کیا کہہ گئیں وہ
نگاہوں نگاہوں میں کیا ہو گئے ہم
تِرے دل میں تیری نظر میں سما کر
تمنائے ارض و سما ہو گئے ہم
حقیقت نہ تھی دل لگانے کے قابل
حقیقت سے کیوں آشنا ہو گئے ہم
محبت کی کچھ تلخیوں کی بدولت
مغنئ شیریں نوا ہو گئے ہم
نہ دیکھے گئے اس نظر کے تقاضے
ز سرتا بہ پا مدعا ہو گئے ہم
سمجھنا ترا کوئی آساں ہے ظالم
یہ کیا کم ہے خود آشنا ہو گئے ہم
بھٹک کر پڑے رہزنوں کے جو ہاتھوں
لٹے اس قدر، رہنما ہو گئے ہم
جنونِ خودی کا یہ اعجاز دیکھو
کہ جب موج آئی خدا ہو گئے ہم
چٹکنے نہ پائی تھیں کلیاں چمن میں
کہ اس جانِ گل سے جدا ہو گئے ہم
محبت نے عمرِ ابد ہم کو بخشی
مگر سب یہ سمجھے فنا ہوگئے ہم
نہیں کم یہ ہستی کی معراج ساغرؔ
کہ خاکسترِ مئے کدہ ہو گئے ہم ​

ساغر نظامی

No comments:

Post a Comment