کسی صورت جنوں کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
بہار آتی ہے، لیکن خانہ ویرانی نہیں جاتی
وہ آتے ہیں مگر میرا تڑپنا کم نہیں ہوتا
وہ ملتے ہیں مگر میری پریشانی نہیں جاتی
وہ یوں آتے ہیں جیسے گھر کی صورت تک نہیں دیکھی
وہ یوں ملتے ہیں گویا شکل پہچانی نہیں جاتی
شباب آیا، تو آئی غیریت بھی ان کے حصے میں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
محبت کا کرشمہ یوں بھی دیکھا ہے کبھی بسملؔ
کہ دریا خشک ہو جاتا ہے، طغیانی نہیں جاتی
بہار آتی ہے، لیکن خانہ ویرانی نہیں جاتی
وہ آتے ہیں مگر میرا تڑپنا کم نہیں ہوتا
وہ ملتے ہیں مگر میری پریشانی نہیں جاتی
وہ یوں آتے ہیں جیسے گھر کی صورت تک نہیں دیکھی
وہ یوں ملتے ہیں گویا شکل پہچانی نہیں جاتی
شباب آیا، تو آئی غیریت بھی ان کے حصے میں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
محبت کا کرشمہ یوں بھی دیکھا ہے کبھی بسملؔ
کہ دریا خشک ہو جاتا ہے، طغیانی نہیں جاتی
بسمل دہلوی
No comments:
Post a Comment