یوں تو وہ ہر کسی سے مِلتی ہے
ہم سے اپنی خوشی سے مِلتی ہے
سیج مہکی بدن سے شرما کر
یہ ادا بھی اُسی سے مِلتی ہے
وہ ابھی پھول سے نہیں مِلتی
دن کو یہ رکھ رکھاؤ والی شکل
شب کو دیوانگی سے مِلتی ہے
آج کل آپ کی خبر ہم کو
غیر کی دوستی سے مِلتی ہے
شیخ صاحب کو روز کی روٹی
رات بھر کی بدی سے مِلتی ہے
آگے آگے جنون بھی ہو گا
شعر میں لَو ابھی سے مِلتی ہے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment