Thursday 22 October 2015

یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے

یوں تو وہ ہر کسی سے مِلتی ہے 
ہم سے اپنی خوشی سے مِلتی ہے
سیج مہکی بدن سے شرما کر 
یہ ادا بھی اُسی سے مِلتی ہے
وہ ابھی پھول سے نہیں مِلتی 
جوہیے کی کلی سے مِلتی ہے
دن کو یہ رکھ رکھاؤ والی شکل 
شب کو دیوانگی سے مِلتی ہے
آج کل آپ کی خبر ہم کو 
غیر کی دوستی سے مِلتی ہے
شیخ صاحب کو روز کی روٹی 
رات بھر کی بدی سے مِلتی ہے
آگے آگے جنون بھی ہو گا 
شعر میں لَو ابھی سے مِلتی ہے

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment