Wednesday 21 October 2015

زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے

زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے، حقیقت اور ہوتی ہے
نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے
یہ مانا، شیشۂ دل💝 رونقِ بازارِِ الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے
👁نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو👁
چھپانے سے زمانے بھر میں شہرت اور ہوتی ہے
یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامق
مزاجِ عشق کی لیکن "نزاکت" اور ہوتی ہے

وامق جونپوری

No comments:

Post a Comment