Wednesday 21 October 2015

میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا

میں چُپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا
اسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا
پٹخ دیا کسی جھونکے نے لا کے منزل پر
ہوا کے سر پہ کوئی دیر سے سوار جو تھا
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر کہ وضعدار جو تھا
عجب غُرور میں آ کر برس پڑا بادل
کہ پھیلتا ہُوا چاروں طرف غُبار جو تھا
قدم قدم رمِ پامال سے میں تنگ آ کر
تِرے ہی سامنے آیا تِرا شکار جو تھا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment