Thursday 22 October 2015

اک خط پڑا تھا یار کے در پر کھلا ہوا

اِک خط پڑا تھا یار کے در پر کھُلا ہوا
دیکھا تو عشق کا ہے وہ دفتر کھُلا ہوا
حیرت ہے رہ گیا ہے یہ کیونکر کھلا ہوا
ہے تیرا در کہ میرا مقدر کھلا ہوا
قاصد سے کیا چھپاؤں کروں کیوں لفافہ بند
سب میرا حالِ زار ہے اس پر کھلا ہوا
ناصح تِرے کلام سے دل پاش پاش ہے
گویا تِری زبان ہے نشتر کھلا ہوا
احسن وہ دل بھی کیا نہ ہو جس میں گدازِ عشق
واللہ، ایسا دل تو ہے پتھر کھلا ہوا

احسن مارہروی

No comments:

Post a Comment