بہ قدرِ ظرف انجمن میں سب کو جام مل گیا
نظر اٹھی کہ مے کشی کا اذنِ عام مل گیا
وہ بال و پر کی شورشیں جو زندگی کے ساتھ ہیں
کبھی کبھی انہیں سکوں بھی زیرِ دام مل گیا
ادا ادا میں اک لطیف احتیاط آ گئی
یہ میکدے کا راز ہے مغاں کو جس پہ ناز ہے
طلب کو پیاس مل گئی، ہوس کو جام مل گیا
وہ تیرا درد تھا، جو شعر بن کے لب پہ آ گیا
وہ تیری بات تھی جسے غزل کا نام مل گیا
رسائی گرچہ ہو نہ پائی محفلِ خواص تک
مگر مِرے کلام کو قبولِ عام مل گیا
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment