Monday, 5 October 2015

دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

 دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے

شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجے

آنکھ کہتی ہے کہ تُو نے ابھی دیکھا کیا ہے

ٹُوٹ کر شاخ سے اک برگِ خزاں آمادہ

سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے

کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں

میرے دامن میں لہو ہے تو مہکتا کیا ہے

دل پہ قابو ہو تو ہم بھی سرِ محفل دیکھیں

وہ خمِ زلف ہے کیا، صورتِ زیبا کیا ہے

ٹھہرو اور ایک نظر وقت کی تحریر پڑھو

ریگِ ساحل یہ رَمِ موج نے لکھا کیا ہے

کوئی رہبر ہے نہ رستہ ہے نہ منزل توصیفؔ

ہم کہ گردِ رہِ صرصر ہیں، ہمارا کیا ہے


ڈاکٹر توصیف تبسم

No comments:

Post a Comment