Monday, 5 October 2015

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

 کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

فرشِ شبنم سے اٹھیں اور گلِ تر ہو جائیں

دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں

رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں

تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے

خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں

وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز

تِری آنکھیں، تِرے بازو، تِرا پیکر ہو جائیں

اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی

کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں

جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے

خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں


ڈاکٹر توصیف تبسم

No comments:

Post a Comment