Sunday, 25 December 2016

روز ہے اک غم نیا میرے دل غمناک میں

روز ہے اک غم نیا میرے دل غمناک میں
روز ہے اک درد تازہ سینۂ صد چاک میں
تیرا صید بستہ فتراک کھل کر رہ گیا
رہ گیا لوہو کا دھبہ دامنِ فتراک میں
اشک خوں مژگاں سے ہیں اس طرح سے لپٹے ہوئے
لگ رہی جس طرح ہو آتش خش و خاشاک میں
پردۂ مینا سے تو جلدی نکل اے دختِ رز
دیکھ تو بیٹھے ہیں کب سے مست تیری تاک میں
اس کے رخسارِ مصفا کی جو دیکھی آب و تاب
مل گئی بس آئینے کی آبرو سب خاک میں
عشق کے دریا میں تیرے کون عاشق کے سوا
اے ظفؔر اتنی کہاں طاقت کسی تیراک میں

بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment