ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں
پر اس ستم سے با مزہ لطف و کرم نہیں
درویش جو ہوئے تو گیا اعتبار سب
اب قابل اعتماد کے قول و قسم نہیں
حیرت میں سکتے سے بھی مِرا حال ہے پرے
مستغنی کس قدر ہیں فقیروں کے حال سے
یاں بارِ غم سے خم ہوئے واں بھویں خم نہیں
شاید جگر کا کام تمامی کو کھنچ گیا
یا لوہو روتے رہتے تھے یا چشمِ نم نہیں
غم اس کا کچھ نہیں ہمیں گو لوگ کچھ کہیں
یہ التفات ان نے جو کی ہے سو کم نہیں
کہنے لگا کہ میؔر تمہیں بیچوں گا کہیں
تم دیکھیو نہ کہیو غلام اس کے ہم نہیں
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment