خرابوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں
دلوں میں بھی فطر رکھے ہوئے ہیں
برابر رابطے ہیں دونوں جانب
اُدھر وہ، اِدھر ہم رکھے ہوئے ہیں
عدو ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں
کرن پھوٹے گی اک دن روشنی کی
اندھیروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں
سبب ان آندھیوں کا جانتے ہو
ہتھیلی پر دِیے رکھے ہوئے ہیں
کسی کو کیا خبر مٹھی میں اپنی
ہوا، بحر و بر رکھے ہوئے ہیں
دعا اپنی کبھی مقبول ہو گی
جبیں کو خاک پہ رکھے ہوئے ہیں
خلؔش طائر جہاں رہتے تھے پہلے
وہاں اب ان کے پر رکھے ہوئے ہیں
خلش بجنوری
No comments:
Post a Comment