دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی
اور دامن قاتل کی ہوا اور طرح کی
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر ہے کچھ اور
دیتی ہے خبر خلقِ خدا اور طرح کی
کس دام اٹھائیں گے خریدار کہ اس بار
بس اور کوئی دن کہ ذرا وقت ٹھہر جائے
صحراؤں سے آئے گی صدا اور طرح کی
ہم کوئے ملامت سے نکل آئے، تو ہم کو
راس آئی نہ پھر آب و ہوا اور طرح کی
تعظیم کر اے جانِ معانی کہ تِرے پاس
ہم لائے ہیں سوغات ذرا اور طرح کی
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment