مِرے کوچے میں وہ کن شوخیوں سے جا بجا ٹھہرے
بڑھے بڑھ کر تھمے دم بھر چلے چل کر زرا ٹھہرے
تغافل کی نہ ٹھہرے آج قاتل فیصلہ ٹھہرے
نہیں تلوار تو فقرہ کوئی چلتا ہوا ٹھہرے
تسلی دل کو جو دیتے ہیں کیسے لوگ ہیں یا رب
اڑا جاتا ہے مطلب کیا لکھوں میں خط میں اے قاصد
پریشانی ٹھہرے دے تو دل میں مدعا ٹھہرے
مِری افتادگی نے آسماں پر مجھ کو پہنچایا
زمیں پر وہ نہ ٹھہرے جو تمہاری خاکِ پا ٹھہرے
وہی انسان پورا ہے، کہ اس کے ہم تو قائل ہیں
بھلوں میں جو بھلا ٹھہرے بروں میں جو برا ٹھہرے
قسم ہے اس کی یہ مرضی نہیں اے داورِ محشر
کہ مجرم داؔغ ٹھہرے اور دشمن بے خطا ٹھہرے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment