Thursday, 29 December 2016

ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق

ہیں نہ زندوں میں نہ مُردوں میں کمر کے عاشق
نہ اِدھر کے ہیں الہٰی، نہ اُدھر کے عاشق
ہے وہی آنکھ جو مشتاق تِرے دید کی ہو
کان وہ ہیں جو رہیں تِری خبر کے عاشق
جتنے ناوک ہیں کماندار تِرے ترکش میں 
کچھ مِرے دل کے ہیں کچھ میرے جگر کے عاشق
برہمن دَیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق
چھپ رہے ہوں گے نظر سے عنقا کی طرح
توبہ کیجیے کہیں مرتے ہیں کمر کے عاشق
بے جگر معرکۂ عشق میں کیا ٹھہریں گے
کھاتے ہیں خنجر معشوق کے چرکے عاشق
کیا ہُوا لیتی ہیں پریاں جو بلائیں تیری
کہ پری زاد بھی ہوتے ہیں بشر کے عاشق
بے کسی، درد و الم، داغ، تمنا، حسرت
چھوڑے جاتے ہیں پسِ مرگ یہ ترکے عاشق
بے سبب سیرِ شب ماہ نہیں ہے یہ امیؔر
ہو گئے تم بھی کسی رشکِ قمر کے عاشق

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment