میں دل میں ان کی یاد کے طوفاں کو پال کر
لایا ہوں ایک موجِ تغزل نکال کر
پیمانۂ طرب میں کہیں بال آ گیا
میں گرچہ پی رہا تھا بہت ہی سنبھال کر
محفل جمی ہوئی ہے تِری راہ میں کوئی
آزاؔد! جنس دل کو فقط اک نظر پہ بیچ
سودا گِراں نہیں نہ بہت قیل و قال کر
خط کے جواب میں نہ لگا اتنی دیر تو
میرا اگر نہیں ہے تو اپنا خیال کر
کیوں میں نے دل دیا ہے کسے میں نے دل دیا
اے عقل! آج مجھ سے نہ اتنے سوال کر
اے دل! یہ راہِ عشق ہے راہِ خرد نہیں
اس پر قدم بڑھا تو ذرا دیکھ بھال کر
پھر عشق بزمِ حسن کی جانب رواں ہے آج
دیوانگی کو عقل کے سانچے میں ڈھال کر
آزاؔد! پھر دکن کا سمندر ہے اور تُو
لے جا دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment