ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے
کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو
کھویا گیا نہیں میں ایسا جو کوئی پاوے
چھاتی کے داغ یکسر آنکھوں سے کھل رہے ہیں
ہیں پاؤں اس کے نازک گل برگ سے بجا ہے
عاشق جو رہگزر میں آنکھوں کے تئیں بچھاوے
یوں خاک منہ پہ مل کر کب تک پھرا کروں میں
یارب! زمیں پھٹے تو یہ رُو سیہ سماوے
اے کاش، قصہ میرا ہر فرد کو سنا دیں
تا دل کسو سے اپنا کوئی نہ یاں لگاوے
ترکِ بتاں کا مجھ سے لیتے ہیں قول یوں ہی
کیا ان سے ہاتھ اٹھاؤں گو اس میں جان جاوے
عاشق کو مر گئے ہی بنتی ہے عاشقی میں
کیا جان جس کی خاطر شرمندگی اٹھاوے
جی میں بگڑ رہا ہے تب میؔر چپ ہے بیٹھا
چھیڑو ابھی تو کیا کیا باتیں بنا کے لاوے
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment