Thursday 29 December 2016

ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے

ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے
کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو
کھویا گیا نہیں میں ایسا جو کوئی پاوے
چھاتی کے داغ یکسر آنکھوں سے کھل رہے ہیں
دیکھیں ابھی محبت کیا کیا ہمیں دکھاوے
ہیں پاؤں اس کے نازک گل برگ سے بجا ہے
عاشق جو رہگزر میں آنکھوں کے تئیں بچھاوے
یوں خاک منہ پہ مل کر کب تک پھرا کروں میں
یارب! زمیں پھٹے تو یہ رُو سیہ سماوے
اے کاش، قصہ میرا ہر فرد کو سنا دیں
تا دل کسو سے اپنا کوئی نہ یاں لگاوے
ترکِ بتاں کا مجھ سے لیتے ہیں قول یوں ہی
کیا ان سے ہاتھ اٹھاؤں گو اس میں جان جاوے
عاشق کو مر گئے ہی بنتی ہے عاشقی میں 
کیا جان جس کی خاطر شرمندگی اٹھاوے
جی میں بگڑ رہا ہے تب میؔر چپ ہے بیٹھا
چھیڑو ابھی تو کیا کیا باتیں بنا کے لاوے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment