سرخئ شام لگے مجھ کو شہیدوں کا لہو
اور ستارے کسی بیوہ کے لرزتے آنسو
آج خود ریگ اڑاتے ہوئے غزلیں گائیں
آج صحرا میں بگولہ تھا، نہ کوئی آہو
اس کی یادیں ہیں کہ کانٹوں سے بھرا سینہ ہے
اے وطن کچھ نہ ملا ہم کو تِری گلیوں سے
تِرے پرچم کے لیے ہم نے کٹائے بازو
اے زمیں تیرے بھی اب دودھ میں تاثیر نہیں
اب پھلوں میں ہی مزا ہے نہ گلوں میں خوشبو
چاند تاروں کو بھی نیند آتی ہے خاور زیدی
رات کو جب میں جگاتا ہوں غزل کا جادو
خاور زیدی
No comments:
Post a Comment