Saturday 31 December 2016

سرخئ شام لگے مجھ کو شہیدوں کا لہو

سرخئ شام لگے مجھ کو شہیدوں کا لہو
اور ستارے کسی بیوہ کے لرزتے آنسو
آج خود ریگ اڑاتے ہوئے غزلیں گائیں
آج صحرا میں بگولہ تھا، نہ کوئی آہو
اس کی یادیں ہیں کہ کانٹوں سے بھرا سینہ ہے
چین ملتا ہی نہیں دل کو کسی بھی پہلو
اے وطن کچھ نہ ملا ہم کو تِری گلیوں سے
تِرے پرچم کے لیے ہم نے کٹائے بازو
اے زمیں تیرے بھی اب دودھ میں تاثیر نہیں
اب پھلوں میں ہی مزا ہے نہ گلوں میں خوشبو
چاند تاروں کو بھی نیند آتی ہے خاور زیدی
رات کو جب میں جگاتا ہوں غزل کا جادو

خاور زیدی

No comments:

Post a Comment