جو کچھ لگا وہ کوچۂ گلفام میں لگا
پھر اس کے بعد نہ دل کسی کام میں لگا
جب اس ستم نواز سے منسوب کر دیا
اب اور تہمتیں نہ مِرے نام میں لگا
دل ہی کے ٹکڑے کر دیئے تُو نے تو خوش جمال
لکھنے لگا ہے اپنے جنوں کی حکایتیں
دیوانہ خیر سے تو کسی کام میں لگا
مجھ کو شمیؔم خود ہی اسیری کا شوق تھا
صیاد خوش الگ ہے، کوئی دام میں لگا
شمیم فاروقی
No comments:
Post a Comment