Saturday 31 December 2016

بہت اداس ہوں کوئی فسانہ کہہ مجھ سے

بہت اداس ہوں، کوئی فسانہ کہہ مجھ سے
نہیں یہ عہد بھی عہدِ وفا، نہ کہہ مجھ سے
اسی فضا میں مِرے روز و شب گزرتے ہیں
شکست ذات کا ہر ماجرا نہ کہہ مجھ سے
حیات اصل میں ہے اپنے قرب کا احساس
تِرے بغیر بھی جینا ہوا، نہ کہہ مجھ سے
یہ گفتگو تو رفاقت کی اک ضرورت ہے
کوئی حدیث سخن آزما نہ کہہ مجھ سے
جمال زیست، تغافل شعاریاں تا چند
حکایت نگہِ محرمانہ کہہ مجھ سے
میں اپنی خاک کے ذروں میں چھپ کے بیٹھا ہوں
مجھے بھی ڈھونڈ رہی ہے ہوا، نہ کہہ مجھ سے
شکست دے گئی کاجل کو آنسووں کی لکیر
بچھڑ گیا ہے وہ رنگِ حنا، نہ کہہ مجھ سے

سحر انصاری

No comments:

Post a Comment