Thursday 29 December 2016

دور گردوں ہے مجھے در در پھرانے کے لیے

دورِ گردوں ہے مجھے در در پھرانے کے لیے
میرے باعث سے ہوئی گردش زمانے کے لیے
بے نوائی ہو مقدر میں تو کیجے عاشقی
یہ بہانہ خوب ہے، ذِلت اٹھانے کے لیے
شامِ غم کی آفتیں اے دل! میں تجھ سے کیا کہوں
کون، کس کس، بھیس میں آیا ڈرانے کے لیے
واں تغافل ہے سراسر، خوش ہوں یاں میں سادہ دل
اک ادا ہے، یہ بھی الفت آزمانے کے لیے
اپنے صورت گر سے پوچھوں میں اگر مقدور ہو
کیا بنایا تھا مجھے تُو نے مٹانے کے لیے
زندگی میں ہے ہمیں دوزخ کہ دل رکھتے ہیں ہم
کم ہے یہ آتش کا پرکالہ، جلانے کے لیے
منزلِ مقصود تک مرؔزا پہنچ ہی جائیں گے
خضرِ دل ہمراہ ہے، رستہ بتانے کے لیے

مرزا ہادی رسوا

لیلیٰ مجنوں صفحہ 96 تا 97

No comments:

Post a Comment