Thursday 29 December 2016

جو کچھ بھی گزرنا ہے مرے دل پہ گزر جائے

جو کچھ بھی گزرنا ہے مِرے دل پہ گزر جائے
اترا ہوا چہرہ مِری دھرتی کا نکھر جائے
اک شہرِ صدا سینے میں آباد ہے، لیکن
اک عالمِ خاموش ہے جس سمت نظر جائے
ہم بھی ہیں کسی کہف کے اصحاب کی مانند
ایسا نہ ہو، جب آنکھ کھلے، وقت گزر جائے
جب سانپ ہی ڈسوانے کی عادت ہے تو یارو
جو زہر زباں پر ہے وہ دل میں بھی اتر جائے
کشتی ہے مگر ہم میں کوئی نوحؑ نہیں ہے
آیا ہوا طوفان خدا جانے کدھر جائے
میں سایہ کیے ابر کی مانند چلوں گا
اے دوست! جہاں تک بھی تِری راہگزر جائے
میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مِری بات
خوشبو کی طرح اڑ کے تِرے دل میں اتر جائے

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment