Friday 30 December 2016

جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے

جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے
ہم نے بس آپ کے لیے کیے تھے
تب کہیں جا کے اپنی مرضی کی
پہلے اپنوں سے مشورے کیے تھے
کبھی، اس کی نِگہ میسر تھی
کیسے کیسے مشاہدے کیے تھے
عقل کچھ اور کر کے بیٹھ رہی
عشق نے اور فیصلے کیے تھے
بات ہم نے سنی ہوئی سنی تھی
کام اس نے کیے ہوئے کیے تھے
اسے بھی ایک خط لکھا گیا تھا
اپنے آگے بھی آئینے کیے تھے
یہاں کچھ بھی نہیں ہے میرے لیے
تُو نے کیا کیا مبالغے کیے تھے
اول آنے کا شوق تھا،۔ لیکن
کام سارے ہی دوسرے کیے تھے
بڑی مشکل تھی وہ گھڑی جوادؔ
ہم نے کب ایسے فیصلے کیے تھے

جواد شیخ

No comments:

Post a Comment