Friday 30 December 2016

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے
پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے
آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں
من کی بیتا، تن کا دکھڑا، دنیا کے حالات کہیں
اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا
رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا
کیوں دھرتی پہ ہم لوگوں کے خون کی نسدن ہولی ہے
سچ پوچھو تو یہ کہنے کو آج یہ کھڑکی کھولی ہے
بیلا دیوی آج ہزاروں گھاؤ تمہارے تن من ہیں
جانتا ہوں میں جان تمہاری بندھن میں کڑے بندھن میں
روگ تمہارا جانے کتنے سینوں میں بِس گھول گیا
دور ہزاروں کوس پہ بیٹھے ساتھی کا من ڈول گیا
یاد ہیں تم کو سانجھے دکھ نے بنگالے کے کال کے دن
راتیں دکھ اور بھوک کی راتیں دن جی کے جنجال کے دن
تب بھی آگ بھری تھی من میں اب بھی آگ بھری ہے من میں
میں تو یہ سوچوں، آگ ہی آگ ہے اس جیون میں
اب سو نہیں جانا، چاہے رات کہیں تک جائے
ان کا ہاتھ کہیں تک جائے اپنی بات کہیں تک جائے
سانجھی دھرتی سانجھا سورج، سانجھے چاند اور تارے ہیں
سانجھی ہیں سبھی دکھ کی ساری باتیں سانجھے درد ہمارے
گولی، لاٹھی، ہیسہ شاسن دھن وانوں کے لاکھ سہارے
وقت پڑیں کس کو پکاریں جنم جنم کے بھوک کے مارے
برس برس برسات کا بادل ندیا سی بن جائے گا
دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا
جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی
کہنے کو یہ روپ کی برکھا پورب پچھم برسے گی
جس کے بھاگ سکندر ہونگے بے مانگے بھی پائے گا
آنچل کو ترسانے والا خود دامن پھیلائے گا 
انشاؔ جی یہ رام کہانی پیت پہیلی، بوجھے کون
نام لیے بِن لاکھ پکاریں بوجھ سہیلی، بوجھے کون
وہ جس کے من کے آنگن میں یادوں کی دیواریں ہوں
لاکھ کہیں ہوں روپ جھروکے، لاکھ البیلی ناریں ہوں
اس کو تو ترسانے والا جنم جنم ترسائے گا
کب وہ پیاس بجھانے والا پیاس بجھانے آئے گا

ابن انشا

No comments:

Post a Comment