زمیں سنولا گئی تھی، آسماں گہنا گیا تھا
قلم گم ہو گیا تھا، اور دہن پتھرا گیا تھا
ہم اپنے منتشر سامان پر بیٹھے ہوئے تھے
نئی ترتیب کا پیغام غالب آ گیا تھا
بس اتنا یاد ہے ہم بالکونی میں کھڑے تھے
ہم اک بارہ دری کی سیڑھیوں پر سو گئے تھے
اور اک دریا ہمارے خواب سے ٹکرا گیا تھا
الجھ پڑتا تھا اکثر بے سبب، بے وقت ہم سے
نظرانداز رہنے سے بدن سٹھیا گیا تھا
شناور اسحاق
No comments:
Post a Comment