بہار آنے لگی
پھر بہار آئی، ہوا سے بوۓ یار آنے لگی
پھر پپیہے کی صدا دیوانہ وار آنے لگی
پی کہاں کا شور اٹھا، 'حق سرّہٗ' کا غلغلہ
کوئلیں کوکیں، صدائے آبشار آنے لگی
کھیت جھومے ابر مچلا، پھول مہکے دل کھِلے
قمریاں چہکیں، ہلے پودے، چلی ٹھنڈی ہوا
جام کھنکے، روے مِینا پر بہار آنے لگی
پھر نسیمِ دل ربا چلنے لگی مستانہ وار
پھر شمیمِ طرۂ گیسوئے یار آنے لگی
پھر سماعت سے نوائے کیف نے کی چھیڑ چھاڑ
سامنے پھر لیلائے (لیلیِٰ) نقش و نگار آنے لگی
پھر شگوفے مسکرائے، پھر چبھی سینے میں سانس
جوؔش یادِ یار پھر بے اختیار آنے لگی
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment