Friday, 30 December 2016

یہ کس نے باغ سے اس شخص کو بلا لیا ہے

یہ کس نے باغ سے اس شخص کو بلا لیا ہے
پرند اڑ گئے، پیڑوں نے منہ بنا لیا ہے
اسے پتا تھا میں چھونے میں وقت لیتا ہوں 
سو اس نے وصل کا دورانیہ بڑھا لیا ہے
یہ رات نام نہیں لے رہی تھی کٹنے کا 
چراغ جوڑ کے لوگوں نے دن بنا لیا ہے
درخت چھاؤں سے ہٹ کر بھی اور بہت کچھ ہے 
یہ کیسی چیز تھی اور ہم نے کام کیا لیا ہے
کھرچ رہا ہوں میں دیوار پر لکھے ہوئے نام 
عجیب طرح کی اک بے بسی نے آ لیا ہے

تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment