کیونکر اس کی نگہِ ناز سے جینا ہو گا
“زہر دے اس پہ یہ تاکید کہ ”پینا ہو گا
تیری مژگاں کی نہ تھی دست درازی مشہور
دل جھپٹ کر کسی رہگیر کا چھینا ہو گا
چاک دل تیغِ تغافل سے کیا ہے تم نے
حشر میں سر سے گزر جاۓ گا طوفاں جس کا
وہ ہماری ہی خجالت کا پسینا ہو گا
خلد میں پھر کسی کافر ہی کا دل بہلے گا
گر نہ معشوق و مے و ساغر و مِینا ہو گا
چین دیتے نہیں وہ داغؔ کسی طرح مجھے
میں جو مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment