Wednesday 28 December 2016

چپ ہوں لیکن ہے خموشی بھی کلام آلودہ

چپ ہوں لیکن ہے خموشی بھی کلام آلودہ
تیغ پھر تیغ ہے، ہو لاکھ نیام آلودہ
ساقیا! بزم میں ارزاں ہیں بنامِ مے آج
آبِ ناپاک کے کچھ قطرۂ جام آلودہ
ایک دنیا کا تصور کوئی آسان نہیں
ذہنِ انساں ہے ابھی تک تو مقام آلودہ
شاید ہو جاۓ کبھی نغمہ و پرواز کی قدر
وصفِ طائر ہے ابھی یہ کہ ہو دام آلودہ
ساتھ چلنے کے لیے قافلے تیار نہیں
پاۓ انسان ہے ابھی طرزِ خرام آلودہ
تیرہ ہو لاکھ شبِ زیست، مگر اے غمِ دوست
تُو سلامت ہے تو ہو جاۓ گی شام آلودہ
پاکئ ذوق نے ملاؔ مجھے چلنے نہ دیا
کسی اس راہ پہ، جو ہو چکی گام آلودہ

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment