Thursday 29 December 2016

میری تربت پر اگر آئیے گا

میری تُربت پر اگر آئیے گا
عمرِ رفتہ کو بھی بلوائیے گا
سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے، دل سے اتر جائیے گا
آئیے نزع میں بالیں پہ مِری
کوئی دم بیٹھ کے اٹھ جائیے گا
وصل میں بوسۂ لب دے کے کہا
منہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا
ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا
بس، بہت پاؤں‌ نہ پھیلائیے گا
زہر کھانے کو کہا، تو بولے
ہم جلا لیں گے جو مرجائیے گا
حسرتیں نزع میں‌ بولیں مجھ سے 
چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا
آپ سنیئے تو کہانی دل کی
نیند آ جائے گی، سو جائیے گا
اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے 
بیٹھیئے، جائیے گا، جائیے گا
کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے
اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا
ڈبڈباۓ مِرے آنسو، تو، کہا
روئیے گا تو ہنسے جائیے گا
رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا
آئیے بیٹھیئے، گھر جائیے گا
جس طرح عمر گزرتی ہے امیؔر
آپ بھی یونہیں گزر جائیے گا 

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment