عرضِ الم بہ طرزِ تماشا بھی چاہیے
دنیا کو حال ہی نہیں حلیہ بھی چاہیے
دل یہ بھی چاہتا ہے کہ سب کچھ بیان ہو
اندر کی بات کا اِسے پردہ بھی چاہیے
اے دل! کسی بھی طرح مجھے دستیاب کر
دکھ ایسا چاہیے کہ مسلسل رہے مجھے
اور اس کے ساتھ ساتھ انوکھا بھی چاہیے
اک زخم مجھ کو چاہیے میرے مزاج کا
یعنی ہرا بھی چاہیے، گہرا بھی چاہیے
شدت میں کوئی درد ہو اپنی مثال آپ
پھر اس کو جھیلنے کا سلیقہ بھی چاہیے
اک ایسا وصف چاہیے جو صرف مجھ میں ہو
اور اس میں پھر مجھے یدِ طولٰی بھی چاہیے
ربِ سخن! مجھے تِری یکتائی کی قسم
اب کوئی سن کے بولنے والا بھی چاہیے
کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب
تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہیے
ہنسنے کو صرف ہونٹ ہی کافی نہیں رہے
جواد شیخ! اب تو کلیجہ بھی چاہیے
جواد شیخ
No comments:
Post a Comment