Wednesday, 28 December 2016

نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے

نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے
ہماری بات میں برکت کا قحط پڑ گیا ہے
تو پھر یہ ردِ مناجات کی نحوست کیوں
کبھی سنا کہ عبادت کا قحط پڑ گیا ہے
ملال یہ ہے کہ اس پر کوئی ملول نہیں
ہمارے شہر میں حیرت کا قحط پڑ گیا ہے
سخن کا کھوکھلا ہونا سمجھ سے باہر تھا
کھُلا کہ حرف کی حرمت کا قحط پڑ گیا ہے
کہیں کہیں نظر آئے تو آئے مصرعۂ تر 
نہیں تو شعر میں لذت کا قحط پڑ گیا ہے
نصیب دل کو بھلا کب رہی فراوانی
اور اب تو ویسے بھی مدت کا قحط پڑ گیا ہے
مگر اب ایسی بھی کوئی اندھیر نگری نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ محبت کا قحط پڑ گیا ہے
نہیں میں صرف بظاہر نہیں ہوا ویران
درونِ ذات بھی شدت کا قحط پڑ گیا ہے
کہاں گئیں مِرے گاؤں کی رونقیں جواد
تو کیا یہاں بھی روایت کا قحط پڑ گیا ہے

جواد شیخ

No comments:

Post a Comment