وحشتِ شب چراغوں میں ڈھلتی رہی
روشنی رنگ اپنے بدلتی رہی
اس ستارے میں تھی بے کلی جس کی لو
گاہے بجھتی رہی، گاہے جلتی رہی
اس کی دستار سورج نما تھی بہت
پام و در خوف و دہشت نے لرزا دیے
زندگی ان میں پھر بھی سنبھلتی رہی
اس سماعت میں کیا آگہی کی صدا
جو صدا کے سرابوں میں پلتی رہی
اس پہ سایہ کسی اور سورج کا تھا
جس ستارے پہ دنیا مچلتی رہی
ہو سکی یہ نہ بیدار پوری طرح
دامِ شب میں سحر آنکھ ملتی رہی
جاوید احمد
No comments:
Post a Comment