Saturday 31 December 2016

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں
خود اپنے جرم کی تشہیر کر رہا ہوں میں
جلا رہا ہوں ہتھیلی پہ آنسوؤں کے چراغ
دعا کو قابلِ تاثیر کر رہا ہوں میں
کوئی تو ہمتِ مردانہ دیکھنے آتا
خود اپنی ذات کو تسخیر کر رہا ہوں میں
وہ جانتا نہیں تخریب بھی ضروری ہے
دلِ شکستہ کی تعمیر کر رہا ہوں میں
شمیؔم جس نے گھروں کے چراغ پھونک دیئے
وہ کہہ رہا ہے کہ تنویر کر رہا ہوں میں

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment