شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں
خود اپنے جرم کی تشہیر کر رہا ہوں میں
جلا رہا ہوں ہتھیلی پہ آنسوؤں کے چراغ
دعا کو قابلِ تاثیر کر رہا ہوں میں
کوئی تو ہمتِ مردانہ دیکھنے آتا
وہ جانتا نہیں تخریب بھی ضروری ہے
دلِ شکستہ کی تعمیر کر رہا ہوں میں
شمیؔم جس نے گھروں کے چراغ پھونک دیئے
وہ کہہ رہا ہے کہ تنویر کر رہا ہوں میں
شمیم فاروقی
No comments:
Post a Comment