Friday 30 December 2016

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
وہ ایک خواب، کہ اب تک نظر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں نارسائیوں کا گِلہ
سفر تمام ہوا،۔۔۔ ہم سفر نہیں آیا
دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے
یہ چاہتے تھے۔ مگر دل ادھر نہیں آیا
عجیب ہی تھا مِرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
حریمِ لفظ و معانی سے نسبتیں بھی رہیں
مگر سلیقۂ عرضِ ہنر نہیں آیا

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment