عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
وہ ایک خواب، کہ اب تک نظر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں نارسائیوں کا گِلہ
دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے
یہ چاہتے تھے۔ مگر دل ادھر نہیں آیا
عجیب ہی تھا مِرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
حریمِ لفظ و معانی سے نسبتیں بھی رہیں
مگر سلیقۂ عرضِ ہنر نہیں آیا
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment