آتش کدۂ دل کو ہوا کیوں نہیں دیتے
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے
سرمست اگر ہو تو سرِ بزمِ رقیباں
اک نعرۂ مستانہ لگا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہے کہ خورشید کے دل کی ہے سیاہی
سودا ہے اگر سر میں تو ٹکراتے نہیں کیوں
دیوار میں در کوئی بنا کیوں نہیں دیتے
سلجھاتے ہو بے کار یہ پیچیدہ لکیریں
یہ نقش غلط ہے تو مٹا کیوں نہیں دیتے
بیٹھے ہو جو یوں جسم کی قبروں میں سمٹ کر
کتبہ بھی سرِ قبر لگا کیوں نہیں دیتے
صیقل ہے خیالات کا آئینہ تو شاعرؔ
یہ آئینہ دنیا کو دکھا کیوں نہیں دیتے
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment