Saturday 31 December 2016

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بے قرار کیا

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کِیا 
بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا
تمہارا ذکر نہیں ہے،۔ تمہارا نام نہیں
کیا نصیب کا شکوہ،۔ ہزار بار کیا
ثبوت یہ ہے محبت کی سادہ لوحی کا 
جب اس نے وعدہ کیا، ہم نے اعتبار کیا
مآل ہم نے جو دیکھا سکون و جنبش کا
تو کچھ سجمھ کے، تڑپنا ہی اختیار کیا
مِرے خدا نے، مِرے سب گناہ بخش دیے
کسی کا، رات کو یوں میں نے انتظار کیا

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment