نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا
دل میں یہ شور برابر نہیں رہنے والا
جس طرح خامشی لفظوں میں ڈھلی جاتی ہے
اس میں تاثیر کا عنصر نہیں رہنے والا
اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو خدا ہی جانے
میں اسے چھوڑنا چاہوں بھی تو کیسے چھوڑوں
وہ کسی اور کا ہو کر نہیں رہنے والا
غور سے دیکھ، ان آنکھوں میں نظر آتا ہے
وہ سمندر، جو سمندر نہیں رہنے والا
جرم وہ کرنے کا سوچا ہے کہ بس اب کی بار
کوئی الزام مِرے سر نہیں رہنے والا
میں نے حالانکہ بہت وقت گزارا ہے یہاں
اب میں اس شہر میں پَل بھر نہیں رہنے والا
مصلحت لفظ پہ دو حرف نہ بھیجوں جواؔد
جب مِرے ساتھ مقدر نہیں رہنے والا
جواد شیخ
No comments:
Post a Comment