Wednesday, 28 December 2016

نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا

نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا
دل میں یہ شور برابر نہیں رہنے والا
جس طرح خامشی لفظوں میں ڈھلی جاتی ہے
اس میں تاثیر کا عنصر نہیں رہنے والا
اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو خدا ہی جانے
رنج ایسا ہے کہ اندر نہیں رہنے والا
میں اسے چھوڑنا چاہوں بھی تو کیسے چھوڑوں
وہ کسی اور کا ہو کر نہیں رہنے والا
غور سے دیکھ، ان آنکھوں میں نظر آتا ہے
وہ سمندر، جو سمندر نہیں رہنے والا
جرم وہ کرنے کا سوچا ہے کہ بس اب کی بار
کوئی الزام مِرے سر نہیں رہنے والا
میں نے حالانکہ بہت وقت گزارا ہے یہاں
اب میں اس شہر میں پَل بھر نہیں رہنے والا
مصلحت لفظ پہ دو حرف نہ بھیجوں جواؔد
جب مِرے ساتھ مقدر نہیں رہنے والا

جواد شیخ

No comments:

Post a Comment