Saturday, 31 December 2016

کبھی ہم پہ مہر و مہ کا یہ نظام مہرباں ہو

کبھی ہم پہ مہر و مہ کا یہ نظام مہرباں ہو
کوئی صبح دوست ٹھہرے کوئی شام مہرباں ہو
یہ خدائے بحر و بحر بر کی بھی عجیب حکمتیں ہیں
کبھی تشنگی ہو قرباں، کبھی جام مہرباں ہو
کبھی شب کی خلوتوں میں نہ سنے وہ دل کی باتیں
کبھی مہربان ہو تو سرِ عام مہرباں ہو
کوئ پھول مسکرائے کوئی تارا چھب دکھائے
کوئی در کرے سخاوت کوئی بام مہرباں ہو
تِرا حرفِ سنگ ریشم تِرا نیشتر ہو مرہم
نہیں میرے بس میں ورنہ تِرا نام مہرباں ہو
ہمیں لمحہ بھر کی قربت نہیں چاہئیے ہے خاور
کہ وہ مہرباں اگر ہے تو مدام مہرباں ہو

خاور زیدی

No comments:

Post a Comment