پندِ واعظ سنتے سنتے کان اپنے بھر گئے
کیا عبادت کو ہمیں ہیں، سب فرشتے مر گئے
پھوٹ کر روۓ جو چھالے، ہو گئے جنگل ہرے
چشمِ دریا بار جب برسی تو جل تھل بھر گئے
دیکھ سکتا کیا ہمارا حال، وہ نازک مزاج
تُو ہے کیا معشوق جو ہم التجا تیری کریں
تُو گیا تو ہم بھی تجھ سے اے دلِ مضطر گئے
منہ اندھیرے مجھ کو غافل دیکھ کر شوخی سے وہ
چپکے اٹھ کر چل دئیے، پہلو میں تکیہ دھر گئے
حال میرا پوچھ کر کیا کیا جلے دل میں رقیب
‘جب کہا شوخی سے اس نے ’ان کے دشمن مر گئے
آدمی ایسا کہاں، کوئی فرشتہ ہو تو ہو
شیخ صاحب! یہ نہیں معلوم تم کس پر گئے
فاتحہ پڑھنے بھی کوئی قبر پر آتا نہیں
مر گیا میں کیا کہ سب میری طرف سے مر گئے
داؔغ کے تو نام سے نفرت تھی اس بے مہر کو
پر نہیں معلوم یہ حضرت وہاں کیوں کر گئے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment