آنکھوں سے کام ہم نے بہت ہی جدا لیا
پَل بھر میں ان کو دشت سے دریا بنا لیا
ہوش و خرد کی چلتی کہاں ان کے سامنے
دل نے کہا تو پیار کا بیڑا اٹھا لیا
اب اور مجھ فقیر کو بھاشن نہ دیجیۓ
وہ تیری یاد تھی جو کبھی کم نہیں ہوئی
وہ تیرا نام تھا کہ جسے بار ہا لیا
انبوہِ دوستاں بھی کسی کام کا نہیں
اس کو بھی ہم نے بارِ دِگر آزما لیا
دل کی جبیں میں مانگ بھری اسکے نام کی
اجڑا ہوا تھا شہر، جسے پھر بسا لیا
انوؔر وہ آ گیا تھا یونہی میرے سامنے
آنکھوں میں التماس تھا، لہجہ سوالیہ
صغیر انور
No comments:
Post a Comment