غیر بھی میری طرح کرتے ہیں آہیں کیوں کر
میں بھی دیکھوں کہ پلٹتی ہیں نگاہیں کیوں کر
نہ دلاسا، نہ تسلی، نہ تشفی، نہ وفا
دوستی اس بتِ بدخو سے نباہیں کیوں کر
چاہ کا نام جب آتا ہے بگڑ جاتے ہو
شرم سے آنکھ ملاتے نہیں دیکھا ان کو
پار ہوتی ہیں کلیجے سے نگاہیں کیوں کر
یہ چلن کس نے سکھائے یہ طریقے کس نے
آ گئیں جور و جفا کی تمہیں راہیں کیوں کر
لالہ و گل کو جو دیکھا تو کہا مجنوں نے
سر پہ کانٹوں کے ہوں یہ سرخ کلاہیں کیوں کر
داغؔ وہ چاہتے ہیں غیر کو چاہے یہ بھی
جو برا چاہے ہمارا اسے چاہیں کیوں کر
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment