بس چراغوں کو بجھانا تھا، چلے جانا تھا
نیند میں سارا زمانہ تھا، چلے جانا تھا
پھر کسی حیلے بہانے کی ضرورت ہی نہ تھی
تم نے گر چھوڑ کے جانا تھا، چلے جانا تھا
یہ ہے دنیا، یہاں ہر موڑ پہ دل ٹوٹتا ہے
آنے والے تو یہاں لاکھوں کروڑوں آۓ
سب کا بس ایک فسانہ تھا، چلے جانا تھا
اپنے بدخواہوں سے لڑتے نہیں اے جانِ غزل
ان سے بس پیچھا چھڑانا تھا، چلے جانا تھا
انور جمال انور
No comments:
Post a Comment