اثباتِ ذات میں ہوا انکار ہر طرف
بس ہو رہی ہے اپنی ہی تکرار ہر طرف
کیا حسن بک رہا ہے ہوس کی دکان میں
چڑھتی گئی ہے گرمئ بازار ہر طرف
یوں تھا کہ اک خیال نمو پا نہیں سکا
جاؤں کہاں نکل کے میں تنہائی سے کہ ہیں
گھیرے ہوئے مجھے در و دیوار ہر طرف
اٹھتی ہوئی ہیں مجھ میں وہ آتش فشانیاں
سلگے ہوئے ہیں ثابت و سیار ہر طرف
سالم سلیم
No comments:
Post a Comment