Friday 30 December 2016

ہمارے دل میں جو کچھ تھا وہی دیوار و در میں ہے

ہمارے دل میں جو کچھ تھا وہی دیوار و در میں ہے
کہ اس دیوانگی کے عکس کا آئینہ، گھر میں ہے
ہم اپنی روشنی کی جستجو میں اب کہاں جائیں 
دِیے کی لو کہیں بھی ہو ہواؤں کی نظر میں ہے
سفر کا انت ہے، اب راستے معدوم ہیں سارے 
مگر تسکینِ دل کو کارواں اپنا سفر میں ہے
ستم کاری بھی اک مجبوریوں کا کھیل ہے شاید 
یہاں تو ہر ستم گر، اک ستم گر کے اثر میں ہے
کوئی موجِ تمنـا تو چھلک جاتی کناروں سے 
مگر دریاۓ دل بھی انکے ہونٹوں کے بھنور میں ہے
حصارِ بدگمانی سے خیال و خواب کیا نکلیں 
کہ اس آسیب کا سایہ تو اب شام و سحر میں ہے

جاوید احمد

No comments:

Post a Comment