ختم شورِ فغاں تھا، دور تھی سیاہی بھی
دم کے دم میں افسانہ تھا مِری تباہی بھی
التفات سمجھوں یا بے رخی کہوں اس کو
رہ گئی خلش بن کر اس کی کم نگاہی بھی
اس نظر کے اٹھنے میں، اس نظر کے جھکنے میں
یاد کر وہ دن جس دن تیری سخت گیری پر
اشک بھر کے اٹھتی تھی میری بیگناہی بھی
پستئ زمیں سے ہے رفعتِ فلک قائم
میری خستہ حالی سے تیری کجکلاہی بھی
شمع بھی، اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی، راہی بھی
گنبدوں سے پلٹی ہے اپنی ہی صدا مجروحؔ
مسجدوں میں کی میں نے جا کے دادخواہی بھی
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment